سات نشستوں پر محیط بلوچستان اسمبلی کا 28 واں اجلاسایک طرف اراکین کی کم تعداد میں شرکت کا شکار رہا تو دوسری طرف احتجاج اور واک آؤٹس سے بھرپور دکھائی دیا ۔ ایک بیورو کریٹ کے گھر سے کروڑوں روپے کی رقم بر آمد ہونے کیخلاف حزب اختلاف نے سات میں سے چھ نشستوں میں نہ صرف ایوان کے اندر احتجاج کیا بلکہ کارروائی کا مقاطعہ بھی جاری رہا ۔ حزب اختلاف نے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی کابینہ میں موجود ایسے اراکین جو وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کی کابینہ میں بھی شامل ہیں سے فوری طور پر مستعٰفی ہونیکا مطالبہ کیا ۔حزب اختلاف کے احتجاج اور واک آؤٹس پر اجلاس کے مجموعی وقت کا 69 فیصد وقت صرف ہوا ۔ فافن کے مشاہدہ کاروں نے05 مئی سے 20 مئی 2016 تک منعقدہ اس اجلاس کی تمام نشستوں کی براہ راست مشاہدہ کاری کی ۔ اجلاس کی ہر نشست اپنے طے شدہ وقت کی بجائے 56 منٹ کی تاخیر کیساتھ شروع ہوئی ۔ اجلاس کی تمام (07) نشستوں کا مجموعی دورانیہ 13 گھنٹے 29 منٹ ریکارڈ کیا گیا ۔ سب سے طویل نشست 17 مئی 2016 کو منعقد ہوئی جو دو گھنٹے 58 منٹ جاری رہی جبکہ مختصر ترین نشست 12 مئی 2016 کو منعقد ہوئی جسکا دورانیہ ایک گھنٹہ پانچ منٹ رہا ۔ اہم اراکین کی شرکت سپیکر نے تمام سات نشستوں میں شرکت کی 86 فیصد وقت تک صدارت کے فرائض ادا کئے ۔ ڈپٹی سپیکر کا عہدہ خالی ہونے کے باعث بقیہ وقت کی صدارت کے فرائض چیئر پرسنوں کے پینل کے ایک رکن کے حصے میں آئے ۔ وزیراعلٰی ( قائد ایوان ) نے تین نشستوں میں شرکت کی اور اجلاس کے مجموعی وقت کا 33 فیصد ایوان میں گزارا ۔ قائد حزب اختلاف پانچ نشستوں میں شریک ہوئے اور 25 فیصد وقت تک ایوان میں موجود رہے۔ پاریمانی قائدین کی شرکت پارلیمانی قائدین میں سے پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی قائد نے 06 نشستوں میں شرکت کی ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے پارلیمانی قائدین پانچ ، پانچ نشستوں میں شریک ہوئے ۔ پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی قائد چار ، مجلس وحدت المسلمین کے پارلیمانی قائد ایک نشست میں شریک ہوئے تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی قائد نے کسی نشست میں شرکت نہ کی ۔ اراکین کی شرکت صوبائی ایوان کا 28 واں اجلاس مجموعی طور پر اراکین کی کم تعداد میں شرکت کا شکار رہا ۔ مشاہدہ کاروں نے ہر نشست کے آغازپر ایوان میں موجود اراکین کی تعداد21 ( 32 فیصد ) جبکہ اختتام پر موجود اراکین کی تعداد 19 ( 30 فیصد ) شمار کی ۔ اجلاس کی ہر نشست میں اوسطا ایک اقلیتی رکن بھی شریک ہوئے ۔ قراردادیں اجلاس کے دوران ایوان نے درج ذیل 09 قراردادوں کی منظوری دی ۔ نظام کار پر موجود دو دیگر قراردادوں پ غور نہ کیا گیا ۔ان میں سے پہلی قرارداد غریب طلبہ و طالبات کیلئے صدر اور وزیراعظم کے تعلیمی وظائف کی بحالی جبکہ دوسری قرارداد میں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلبہ کا کوٹہ بڑھانے کی بات کی گئی تھی ۔ سوالات سات نشستی اجلاس کے نظام کار پر موجود تمام 20 نشانذدہ سوالات کے جوابات نہ دیئے جا سکے ۔ اسکی بڑی وجہ سوالات کے محرکین یا ضواب دینے والے متعلقہ وزرا کی ایوان سے غیر حاضری تھی ۔ تحاریک التوا نظام کار پر ٓانیوالی تین تحاریک التوا میں سے ایوان نے ایک تحریک کو متعلقہ مجلس قائمہ کے سپرد کیا ۔ دوسری تحریک التوا کی بحث کیلئے منظوری دی گئی جبکہ تیسری تحریک التوا پر اراکین نے بحث کی ۔ پہلی تحریک التوا جمعیت العلما اسلام (ف) کے ایک رکن نے کوئٹہ کے ایک سب ڈویژنل آفیسر کیخلاف پیش کی اور مذکورہ افسر پر فاضل رکن کیساتھ بد تمیزی کریکا الزام عائد کیا ۔ بحث کیلئے منظور کی گئی تحریک التوا میں پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ کا معاملہ اٹھایا گیا جبکہ جس تحریک پر بحث کی گئی اسکا موضوع صوبے کی تعلیمی ترقی تھا ۔ نکات ہائے اعتراض اجلاس کے دوران اراکین نے مجموعی طور پر 50 نکات ہائے اعتراض اٹھائے اور مختلف معاملات 219 منٹ تک گفتگو کی ۔ کورم اجلاس کے دوران صرف ایک دفہعہ کورم کی کی نشاندہی کی گئی ۔ چھٹی نشست مین جمعیت العلما اسلام (ف) کے ایک رکن نے کورم کی نشادہی کا فریضہ ادا کیا ۔ سسپیکر نے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کا حکم دیا ، جس کے بعد گنتی کرانے پر کور م کم پائے جانے پر نشست ملتوی کر دی گئی ۔