پنجاب اسمبلی کا 23 واں اجلاس 22 اگست سے 02ستمبر2016 تک دس نشستوں منعقد ہوا ۔ اجلاس کے دوران کے سرکاری قانون سازی کی بھرمار رہی تاہم عوامی اہمیت کے اہم ترین معاملات سرکاری بینچوں کی معمولی سی توجہ بھی حاصل نہ کر پائے ۔ وزیراعلیٰ ( قائد ایوان) اس اجلاس کی کسی نشست میں بھی شریک نہ ہوئے۔ اجلاس کے دوران کی گئی قانون سازی 14 سرکاری ، دو نجی قانونی مسودات بشمول پانچ آرڈیننسوں پر مشتمل رہی ۔ یہ آرڈیننس گزشہ دو ماہ کے دوران اس وقت جاری کئے گئے جب اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا ۔ اجلاس کے دوران الطاف حسین اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان مخلاف بیانات سمیت مختلف معاملات پر متعدد قراردادیں منظور کی گئیں ، صوبے میں بچوں کے اغوا کے واقعات ، امن و امان اور دیگر موضوعات پر بحث بھی کی گئی ۔ اجلاس کی ہر نشست مقررہ وقت سے اوسطاایک گھنٹہ 19 منٹ تاخیر کیساتھ شروع ہوئی اور02 گھنٹے 42 منٹ جاری رہی ۔ اراکین کی نشستوں مین شرکت کی شرح بھی کچھ حوصلہ افزا نہ تھی ۔ ہر نشست کا آغاز اوسطا 20 اراکین جبکہ اختتام 48 اراکین کی موجودگی کیساتھ ہوا ۔ قائد ایوان کسی نشست مٰن شریک نہ ہوئے تاہم قائد حزب اختلاف نے دس میں سے نو نشستوں میں شرکت کی اور اجلاس کے مجموعی وقت کا ساٹھ فیصد حصہ ایوان کے اندر گزارا۔ اجلاس کی تمام نشستوں کی صدارت سپیکر نے تاہم اس دوران ایک موقع پر ایک گھنٹہ اور 21 منٹ کیلئے صدارت کے فرائض چیئر پرسنوں کے پینل کے ایک رکن نے بھی انجام دیئے۔ ڈپٹی سپیکر تین نشستوں مین شریک ہوئے تاہم کسی نشست کی صدارت کے فرائض ادا نہ کر سکے ۔ پارلیمانی قائدین میں سب سے زیادہ چھ نشستوں میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی قائد شریک ہوئے جبکہ پاکستان پیپلز کے پارلیمانی قائد نے دو نشستوں اور مسلم لیگ ضیا کے پارلیمانی قائد نے ایک نشست میں شرکت کی ۔ قانون سازی 23 ویں اجلاس کے دوران ایوان نے پانچ سرکاری قانونی مسودات کی منظوری دی جبکہ جبکہ پانچ آرڈیننسوں ، دو نجی اور سرکاری قانونی مسودات سمیت 11 قانون سازی کی 11 تجاویز کو متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا ۔ قراردادیں رپورٹیں بلز سوالات نکات ہائے اعتراض توجہ دلاؤ نوٹس احتجاج ، واک آؤٹس کورم تحریک استحقاق تحریک التوا بحث